اس کا بچہ مکتب میں داخل کردیا گیا استاد نے اسے پہلے دن ہی بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِپڑھائی۔ تب مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں زمین کے اندر اسے عذاب دیتا ہوں جبکہ اس کا بیٹا زمین کے اوپر میرا نام (رحمان ورحیم) لیتا ہے۔
(آفرین شاہد‘ قندیل شاہد‘ ڈیرہ غازیخان)
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! ہم سب گھر والے عبقری بہت شوق سے پڑھتے ہیں‘ چند ماہ پہلے کا رسالہ ہمارے ہاتھوں میں پہنچا تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس میں آپ نے میری حوصلہ افزائی کی اور میرے ارسال کردہ ’’اقوال زریں‘‘ شائع کیے مجھ میں اور زیادہ لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اس لیے ایک کہانی میری طرف سے اس رسالہ نایاب رسالہ کیلئے پیش خدمت ہے:۔بسم اللہ کی تاثیر:بادشاہ روم قیصر نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خدمت میں خط لکھا کہ میرے سر میں درد رہتا ہے کوئی علاج بتائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس کے پاس ایک ٹوپی بھیجی کہ اس کو سر پر رکھا کرو درد جاتا رہے گا۔ چنانچہ بادشاہ جب وہ ٹوپی سر پر رکھتا تو درد ختم ہوجاتا اور جب اسے اتارتا درد دوبارہ لوٹ آتا۔ اسے بڑا تعجب ہوا‘ تجسس سے ٹوپی چیری تو اس کے اندر ایک کاغذ تھا جس پر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِلکھا تھا۔ یہ بات قیصر کے دل میں گھر کرگئی۔ کہنے لگا ’’دین اسلام کس قدر معزز ہے‘ اس کی تو ایک آیت بھی باعث شفاء ہے اور پورا دین باعث نجات کیوں نہ ہوگا؟ چنانچہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔
ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا گزر ایک قبر پر ہوا جس میں میت کو عذاب دیا جارہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا کہ اُسی قبر میں رحمت کے فرشتے ہیں‘ قبر میںعذاب کی تاریکی کی بجائے مغفرت کا نور ہے۔
آپ علیہ السلام کو تعجب ہوا‘ اللہ تعالیٰ سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ’’ یہ بندہ گنہگار تھا جس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا تھا‘ اس کا بچہ مکتب میں داخل کردیا گیا استاد نے اسے پہلے دن ہی بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھائی۔ تب مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں زمین کے اندر اسے عذاب دیتا ہوں جبکہ اس کا بیٹا زمین کے اوپر میرا نام (رحمان ورحیم) لیتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے کاموں سے مغفرت
محترم حکیم صاحب السلام علیکم! عبقری میں میری بھیجی ہوئی تحریریں شائع کیں اس کیلئے بے حد مشکور اور ممنون ہوں اور دعاؤں کی طلب گار ہوں۔ رسالہ عبقری میں بچوں کے صفحہ کیلئے ایک اور تحریر ارسال کررہی ہوں یقیناً اس کو پڑھ کر بچوں کو بہت فائدہ ہوگا۔
٭ دن کا آغاز اور دن کا اختتام نیک کاموں سے کرنا۔ ٭جس کے اعمال کا اختتام خیر کے ساتھ ہو۔ ٭ بھلائیوں کو کرنا اور برائیوں کو چھوڑنا۔ ٭ نابینا آدمی کا ہاتھ پکڑ کر چلنا اس کو اس کی منزل پر پہنچا دینا یا اسے سڑک پار کروا دینا۔ ٭ہر جمعہ کو والدین کی قبر کی زیارت کرنا۔٭ خوش خلقی سے ملنا گناہوں کا کفارہ ہے۔٭ گناہ کا پختہ ارادہ کرنے کے بعد گناہ سے رکنا۔ ٭غصہ کی حالت میں درگزر کرنا۔ ٭مسلمان بھائیوں سے مصافحہ کرنا بھی مغفرت کا مؤجب ہے۔ ٭باوضو سونا۔٭ گناہ پر غمگین ہونایا گناہ پر شرمندہ ہونا۔٭ کھانا کھلانا۔٭ جانوروں پر شفقت کرنا۔٭ کھانا کھانے اور کپڑا پہننے کے بعد اللہ کی حمدو ثناء کرنا۔٭ خریدو فروخت میں نرمی برتنا۔٭ اپنے بھائی سے صلح کرنے میں پہل کرنا۔٭ خالص اللہ تعالیٰ کیلئے مجالس ذکر کا قیام۔ ٭علم کی طلب میں لگنے سے بھی گناہوں کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ ٭جولوگوں کی لغزشوں کو معاف کردے اللہ اس کی خطاؤں کو معاف کردیں گے۔ ٭پانی پلانا بھی گناہوں اور خطاؤں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ ٭ملاقات کیلئے آنے والے مسلمان کا اکرام کرنا۔٭ مسلمانوں کی حاجتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنا۔ ٭مومن کو خوش کرنا۔ ٭لوگوں کے درمیان مصالحت کروانا۔ ٭میت کی تجہیز وتکفین کرنا۔ ٭گناہ کے بعد اس کا پچھتاوا اور نیکی کرنا اس گناہ کو مٹا دیتا ہے۔ ٭جنازے کے پیچھے چلنا۔ ٭مساجد کیلئے چندہ دینا اور لوگوں کیلئے پانی کا انتظام کرنا۔ ٭مریض کی عیادت کرنا۔ ٭جھگڑے اور بغض و کینہ کو چھوڑ دینا۔ ٭مسلمان کے راستے سے کانٹے یا کسی بھی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا۔ ٭اللہ کے خوف سے کپکپانا اور لرزنا۔٭ اسلام میں بوڑھا ہوجانا۔ ٭جس نے جروح و قصاص معاف کردیا۔ ٭مجلس ذکر میں شرکت کرنا۔ ٭اللہ کی نعمتوں پر اس کی تعریف کرنا۔
لالچ بُری بلا ہے
۔(محمد بلال‘ لاہور)۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک نوجوان رہتا تھا۔ اس کو سکے جمع کرنےکا بہت شوق تھا۔ اس کے پاس ایک تھیلی ہوتی تھی وہ اپنے تمام سکے اس تھیلی میں رکھتا تھا۔ وہ ڈر کے مارے کہ کوئی اس کی تھیلی نہ چُرا لے اپنی تھیلی کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ ایک دن اُس کی تھیلی مکمل طور پر بھر چکی تھی۔ اب وہ اپنی تھیلی کی اور بھی زیادہ حفاظت کرنے لگا تھا۔ ایک دن وہ ایک ٹوٹے ہوئے پل کے اوپر سے جارہا تھا۔ اُس پل کے نیچے سے دریا بہتا تھا۔ اچانک اس بیچارے کا پاؤں پھسل گیا اور وہ اس میں جاگرا۔ وہ بہت مشکل سے وہاں سے نکل آیا مگر افسوس کہ وہ اپنی سکوں کی تھیلی وہاں کھوبیٹھا۔ اس نے اس کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ آخراس نے اعلان کروایا کہ جو شخص اس کی سکوں والی تھیلی ڈھونڈ کر لائے گا ‘ وہ اس کو اس میں سے دس سکے انعام کے طور پر دے گا۔ آخر ایک دن اس کے پاس ایک کسان آیا‘ اس کے پاس اس کی اشرفیوں والی تھیلی تھی۔ اس کسان نے وہ تھیلی اس نوجوان کے ہاتھ میں تھما دی۔ وہ لڑکا اس تھیلی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ مگر جب کسان نے اپنا انعام مانگا تو اس لڑکے کے دل میں لالچ آگیا۔ اس نے کہا کہ تم پہلے ہی اس میں سے اپنا انعام چرا چکے ہو‘ اس میں ایک انڈے کی شکل کا ایک موتی تھا جو کہ اب اس میں نہیں ہے۔ میں تمہیں عدالت میں لے کر جاؤں گا اور اپنا حساب پورا کروں گا۔ اس کسان نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا مگر وہ لڑکا نہ مانا۔ آخرکار وہ اس کو عدالت میں لے گیا۔ ان دونوں نے اپنا اپنا مسئلہ بیان کیا۔ حج صاحب ان دونوں کی باتوں کو بڑے غور سے سنتے رہے۔ آخر جج صاحب کے فیصلہ سنانے کا وقت آگیا ۔ جج صاحب نے لوگوں کو مخاطب کرکے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ کے خیال سے جس طرح سے یہ تھیلی بھری ہوئی ہے کیا اس میں اتنی گنجائش ہے کہ اس میں ایک انڈے کی جسامت کا موتی تو کیا کوئی سکا بھی آسکے؟ لوگوں نے جواب دیا ’’نہیں‘‘۔ پھر جج صاحب نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’ چونکہ اس تھیلی میں کسی اور چیز کے اضافے کی گنجائش نہیں ہے اس لیے یہ تھیلی اس نوجوان کی نہیں ہے کیونکہ اس نوجوان کے الفاظ کے مطابق اس میں ایک انڈے کی جسامت کے برابرموتی کی جگہ ہے اس لیے یہ تھیلی اس نوجوان کی نہیں اور قانون کے مطابق یہ تھیلی جس شخص کو ملی ہے اب اسی شخص کی ہے‘‘ اس لالچی لڑکے نے اپنی صفائی میں بہت کچھ کہا مگر اس کی کسی نے ایک نہ سنی۔ اس طرح اس کو اس کے لالچ کی سزا مل گئی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں